خطبہ فدک: منظر اور پس منظر

Front Cover
 

Contents

Section 6
Section 7
Section 8
Section 9

About the author (2014)



مولانا سید شاہد جمال رضوی سر زمین ہندوستان کی مردم خیز بستی گوپال پو ر میں ٤جون ١٩٨٣ ؁کو پیدا ہوئے ۔ والد کا نام ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی ہے جن کی شخصیت اردو داں حضرات کے لئے محتاج تعارف نہیں ، انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں اردو داں حضرات کو بہت سے تحفے دئیے ہیں جن میں سر فہرست ''ترجمہ الغدیر '' ہے ، دیہات کی زندگی میں وسائل حیات کی کمی کے باوجود بہت کم مدت میں الغدیر جیسی علمی ، ادبی اور فنی کتاب کا ترجمہ کردینا انہیں کا کارنامہ ہے ، بعد والے صرف ان کی پیروی کرسکتے ہیں ،تقابل نہیں۔
مولانا سید شاہد جمال رضوی ایسی ہی قابل قدر اور نمونۂ عمل شخصیت کی بہترین یادگار ہیں ، انہوں نے اپنی کم عمری کے باوجود ڈھیروں قلمی کارنامے پیش کر کے'' سر لابیہ'' ہونے کا ثبوت دیاہے ، اسی لئے بجا طور پرانہیں ''یادگار ادیب عصر'' کہاجاسکتاہے ۔
یادگار ادیب عصر نے ابتدائی تعلیم مدرسہ ناصر الایما ن گوپال پور میں حاصل کی اور وہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد محمد صالح ہائی اسکول ( حالیہ انٹر کالج )میں انگریزی تعلیم کے لئے داخل ہوئے ،ا بھی نویں درجہ میں زیر تعلیم تھے کہ ١٩٩٤ء کے آواخر میں ان کے والد مرحوم ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی اپنے ہمراہ جامع العلوم جوادیہ عربی کالج بنارس لے گئے اور وہاں سرکار شمیم الملة کے سپرد کردیا تاکہ ان کے زیر شفقت اپنی مذہبی اور دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔
٢٠٠٤ ء میں مدرسہ جوادیہ کے آخری درجہ کا امتحان دیا اور اس میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرکے ''فخر الافاضل '' کی سند حاصل کی ۔
فراغت سے ایک سال قبل بعض ایرانی اساتذہ ہندوستان تشریف لائے اور انہوں نے طلباء کو حوزۂ علمیہ قم لے جانے کے لئے بڑے پیمانے پر آزمون لیا ،جامعہ جوادیہ سے قبول ہونے والے معدودے چند طلباء میں مولانا سید شاہد جمال رضوی کا نام بہت نمایاں ہے ۔مولانا ایرانی امتحان میں قبول ہونے کے ایک سال بعد ایران تشریف لے گئے اورحوزۂ علمیہ قم میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ، آج بھی وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور قلم و زبان کے ذریعہ دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

قلمی کارنامے
مولانا سید شاہد جمال رضوی نے بہت پہلے سے قلم کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے دین و شریعت کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ قرار دیا ،جامعہ جوادیہ میں طالب علمی کے ابتدائی دور میں بھی انہوں نے بہت سے مضامین اور مقالے قلمبند کئے جو ہندوستان کے معروف جرائد میں شائع ہوئے جن میں سرفہرست الجواد ، اصلاح ، الواعظ اور راہ اسلام ہے ۔ ایران پہونچنے کے بعد بھی انہوں نے قلم نہیں چھوڑا اور وقفے وقفے سے مضامین و مقالے قلمبند کرتے رہے پھر کچھ ہی دونوں بعد تالیف و ترجمہ کا کام شروع کردیا ۔ الحمد للہ اس کم عمری کے باوجود ان کے قلمی کارناموں میں ڈھیروں مضامین اور کتابیں شامل ہیں ،جن میں الغدیر کی دو جلدیںاور تلخیص الغدیر بہت نمایاں حیثیت کی حامل ہیں، آپ کے قلمی کارناموں میں بعض زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں اور بعض زیر طبع ہیں ؛یہاں ان میں سے بعض کا تذکرہ کیاجارہاہے : 
١۔ ترجمہ الغدیر (جلد ٦) 
٢۔ ترجمہ الغدیر (جلد ١١) 
٣۔ صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہراء 
٤۔ امام حسین علیہ السلام 
٥۔ مایہ ناز صحابی ؛ حجربن عدی کندی 
٦۔ نورانی راستہ ، چار جلدیں ( نہج البلاغہ کلمات قصار کے ترجمہ و مفاہیم سے آشنائی ) 
٧۔انوار ہدایت جلد اول 
٨۔ اشک شہادت 
٩۔ خطبہ فدک ، منظر اور پس منظر 
١٠۔ خطبہ فدک (اردو) 
١١۔ فروغ غدیر ( جوانوں کے لئے غدیر شناسی پر مشتمل اسباق کا مجموعہ) 
١٢۔ نسیم ولایت ( آیات ولایت پر مشتمل اسباق کا مجموعہ) 
١٣٣۔ ماضی کے جھروکے سے ( اصحاب غدیر کا مصاحبہ ، جلد اول) 
١٤۔ سیر ت رسول ؛ آج کی ضرورت (زیر طبع ) 
١٥۔ قرآن مجید ؛ خصوصیات کے آئینہ میں(زیر طبع) 
١٦۔تلخیص الغدیر (اردو) 
ان کے علاوہ مختلف موضوعات پر تقریباً ٥٥کتابیں مکمل ہو چکی ہیں جو عنقریب شائع ہونے والی ہیں ، اپنی کتابوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے والد کے کارناموں پر بھی تکمیل و ترتیب کا کام کررہے ہیں ، خدا ان کی ان زحمتوں کو قبول فرمائے۔


Bibliographic information